Top Ad

Header Ad

آپ اپنی تنخواہ کیسے بڑھا سکتے ہیں

How you can increase your salary (Urdu)

 آپ اپنی تنخواہ کیسے بڑھا سکتے ہیں

اگر آپ کو ملازمت کرتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے، تنخواہ بھی آپ کی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ آپ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ جتنا آپ کام کرتے ہیں ہیں آپ کی کمپنی / مالک اتنی تنخواہ نہیں دیتا جتنی تنخواہ کے مستحق آپ خود کو سمجھتے ہیں۔ آپ نے اس بات کا الزام بہت دفعہ اپنی قسمت کو بھی دیا ہوگا۔ آپ سوچتے ہیں کہ یار میری قسمت ہی ایسی ہے۔ آپ خود کو یہ کہہ کر بھی مطمئن کرتے ہیں کہ میں محنت بہت کرتا ہوں لیکن مجھے صلہ نہیں ملتا۔ کتنے ملازمین میرے بعد یہاں پر کام کرنے کے لیے آئے اور ان کی ترقی بھی ہو گئی اور تنخواہ بھی بڑھ گئی وغیرہ وغیرہ۔

اصل میں جب ہم یہ سب کہتے ہیں تو ہم خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت کا اردو ترجمہ ہے کہ "ہارنے والوں کے پاس ہمیشہ بہانے اور جیتنے والوں کے پاس ہمیشہ منصوبے ہوتے ہیں"۔

میں نے آج سے کئی سال پہلے جب متحدہ عرب امارات میں کام کرنا شروع کیا تو میری پہلی کمپنی میں میرے آس پاس کے جو لوگ تھے۔ ان کو میں نے یہ کہتے سنا کہ یہ کمپنی ایک سکول ہے۔ لوگ یہاں پر آتے ہیں سیکھتے ہیں اور کسی دوسری کمپنی میں چلے جاتے ہیں دیکھو وہ پانچ تنخواہ لے رہا تھا دوسری کمپنی میں گیا تو دس ہزار درہم پر کام کر رہا ہے۔ یہ چیز میرے اندر بہت سارے سوالات پیدا کر دیتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ جب میں کسی دوسری کمپنی میں جاؤں گا تو ہی پتہ چلے گا کہ اصل کہانی کیا ہے۔ کیونکہ میرے پاس کم از کم دو کمپنیوں کا مواد ہوگا جس کا میں آپس میں مقابلہ کر سکوں گا۔

میں نے پہلی کمپنی میں سات سال مکمل کیے ان سات سالوں میں میرے دماغ میں جو چیز سب سے زیادہ حاوی رہی وہ یہ تھی کہ میں جب بھی یہ کمپنی چھوڑ کے جاؤ تو دوسری کمپنی میں مجھے میرے کام میں کوئی مسئلہ نہ ہو اور نہ ہی مجھے دوسری جگہ کام ڈھونڈنے کے لیے کسی بندے کا سہارا لینا پڑے یا سفارش کروانی پڑے یعنی میں خود سے پوری طرح مطمئن ہونا چاہتا تھا کہ مجھے اپنا کام بہت اچھے سے آتا ہو۔

ظاہری بات ہے شروع کے سالوں میں میری تنخواہ بہت تھوڑی تھی اور کچھ وقت کے بعد جب مجھے اپنے کام میں کچھ مہارت ہوگئی تو کچھ قریبی لوگ مجھے یہ مشورہ بھی دیتے تھے کہ مجھے اب یہ کمپنی چھوڑ کر کسی دوسری کمپنی میں جانا چاہیے۔  مجھے چلے بھی جانا چاہیے تھا  ۔لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو اچھی طرح سے رہنمائی کرنے والا کوئی بندہ نہیں تھا۔  دوسرا میں نے اپنے کچھ اہداف مقرر کر رکھے تھے لیکن آپ کو میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ پہلی کمپنی میں ایک ویزا پورا کریں اور اپنے کام میں مہارت حاصل کریں اس بات سے قطع نظر کہ کمپنی آپ کو کیا تنخواہ دے رہی ہے ۔آپ یہ سوچیں کہ کمپنی نے اپنے وسائل اپنا انفراسٹرکچر آپ کو دیا ہے  اب یہ آپ پر منحصر ہےکہ آپ اپنے وقت کا استعمال کس طرح کرتے ہیں اور آپ ان چیزوں سے کیسے سیکھ سکتے ہیں۔

آپ نے یہ بات تو سنی ہوگی کہ "اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں اور اگر آپ غریب ہی مر جائیں تو اس میں صرف آپ کا ہی قصور ہے"

لیکن اگر آج ٹیکنالوجی کی دنیا میں جب موبائل فون اور انٹرنیٹ آپ کے ہاتھ میں ہے اور کوئی بھی چیز سیکھنا صرف آپ کی انگلیوں کی جنبش پر ہے پھر بھی آپ غریب ہیں تو میرے خیال سے آپ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں

میں نے پہلی کمپنی میں سات سالہ کام کے دوران اپنی اصل تنخواہ سے اپنی تنخواہ کو تین گناہ کر لیا تھا۔

اسی عرصے کے دوران میں نے اپنے ذرائع آمدنی کا ایک دوسرا ذریعہ بھی پیدا کر لیا تھا تاکہ میرے کسی خطرے کو مول لینے سے میرا خاندان مالی مشکلات کا شکار نہ ہو۔ والدین کی دعاؤں اور اللہ تعالی پر لازوال یقین نے مجھے سرخرو کیا۔

کہتے ہیں "خدا کو لازوال یقین کے ساتھ پکارو کیونکہ خدا اس دل کی پکار نہیں سنتا جو یقین سے عاری ہو"۔

اب میں نے دوسری جگہ کام دیکھنا شروع کیا اور بہت ساری جگہ آن لائن اپلائی کیا۔

ایک بات قابل ذکر ہے کہ میرے پاس کوئی لیپ ٹاپ نہیں تھا میں اپنی سی وی  اپنے اینڈرائڈ موبائل سے ہی بھیجتا تھا۔

جب میں متحدہ عرب امارات میں آیا تو معلومات کی کمی کی وجہ سے اپنے سرٹیفکیٹس کو تصدیق کروا کے نہیں لایا تھا۔

میں نے تصدیق کے لیے اپنی دستاویزات پاکستان بھجوا دی تھیں۔

میرے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی اور میں اس کو رینیو کروانے کے لیے دبئی کونصلیٹ میں جمع کروا چکا تھا۔ نارمل فیس کے ساتھ پاسپورٹ مجھے 30 دن کے بعد ملنے والا تھا۔

لیکن اگلی صبح مجھے ایک کمپنی سے آفر لیٹر مل گیا۔

آفر لیٹر بھی میری موجودہ تنخواہ سے دو گنا زیادہ تھا۔ اب مسئلہ یہ کہ سرٹیفکیٹس تصدیق کے لیے اور پاسپورٹ تجدید کے لئے جمع اور مجھے یہ سارے ڈاکومنٹس ایک مہینے کے اندر اندر اگلی کمپنی کو دینے تھے۔

اللہ نے کرم کیا اور سب کچھ وقت پر ہو گیا میں نے اگلی کمپنی جوائن کرلی۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور نئی کمپنی میں میرے لوگوں کے ساتھ رہ و رسم بڑھتے گئے تو وہاں پر بھی کچھ پچھلی والی باتیں ہی سنائی دیں۔

"یہ کمپنی ایک سکول ہے۔ لوگ یہاں پر آتے ہیں سیکھتے ہیں اور کسی دوسری کمپنی میں چلے جاتے ہیں"۔

کچھ سال اس کمپنی میں کام کرنے کے بعد میں نے وہ کمپنی بھی بدل لی۔

نئی کمپنی دراصل ایک بڑا گروپ تھا جس کے ماتحت تقریبا درجن بھر کمپنیاں تھیں۔ یہاں سروس کے دوران مجھے کئی دوسری کمپنیوں کے لوگوں کے ساتھ بھی رابطہ کرنے کا موقع ملا ایک بات جو یہاں بھی سننے کو ملی وہ تھی "یہ کمپنی ایک سکول ہے۔ لوگ یہاں پر آتے ہیں سیکھتے ہیں اور کسی دوسری کمپنی میں چلے جاتے ہیں"۔

اب تجزیہ کرنے کے لئے میرے پاس بہت سی کمپنیاں اور مواقع تھے۔  مجھے یہ سمجھ آگئی کہ جس بندے کے اندر کچھ سیکھنے کی لگن ہوتی ہے اور آگے بڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے جو اپنے اللہ پر یقین رکھتا ہے اور جو اپنے دماغ کا سافٹ ویئر بدل لیتا ہے تو اس کے لیے ہر کمپنی ہر جگہ ہر آدمی ایک سکول کا درجہ رکھتا ہے وہ ان سے سیکھتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔

اور جو لوگ اپنا تجزیہ نہیں کرتے اپنا احتساب نہیں کرتے مشکلات کو چیلنج نہیں کرتے محنت پر یقین نہیں رکھتے۔ خود کو وقت کے لحاظ سے اپڈیٹ نہیں کرتے نئے ہنر نہیں سیکھتے۔ اور نہ ہی ان سے سیکھتے ہیں جو ان کو چھوڑ کے دوسری اچھی جگہوں پر چلے جاتے ہیں۔

ان کے پاس صرف بہانے ہوتے ہیں ہر چیز کو وہ جسٹیفائی کرتے ہیں کہ وہ ٹھیک تھے بس ان کے آس پاس حالات ٹھیک نہیں تھے۔

اردو زبان میں کچھ بہت ہی زبردست قسم کے محاورے ہیں جو انہیں جیسے حالات و واقعات پر صادق آتے ہیں۔

"آدمی اپنی قسمت کا خود تخلیق کندہ ہوتا ہے"۔

"حرکت میں زندگی اور جمود میں موت ہے"۔

"سفر وسیلہ ظفر"۔

امید کرتا ہوں ہو کہ میری یہ باتیں آپ کی زندگی میں مثبت تبدیلی لے کر آئیں گی اور آپ بہانوں کی بجائے آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں گے۔ آپ مشکلات کو چیلنج کریں گے اور اپنے لئے وہ جگہ ڈھونڈیں گے "جہاں پر آپ چمک سکیں"۔

جب آپ کچھ حاصل کریں گے اپنی محنت سے اپنے بل بوتے پر بغیر کسی سہارے کے جب آپ کو کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ آج تم جو کچھ بھی ہو وہ میری یا ہماری وجہ سے ہو۔

اگر آپ زندگی میں ایسا کچھ حاصل کر لیتے ہیں تو جو اطمینان اور خوشی آپ کو ہوگی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔

Post a Comment

2 Comments

Post Bottom Ad